راحت اندوری
غزل 67
اشعار 45
چاند سورج مری چوکھٹ پہ کئی صدیوں سے
روز لکھے ہوئے چہرے پہ سوال آتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر
جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
سوئے رہتے ہیں اوڑھ کر خود کو
اب ضرورت نہیں رضائی کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 11
کام سب غیر_ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں اور ہم کچھ نہیں کرتے ہیں غضب کرتے ہیں آپ کی نظروں میں سورج کی ہے جتنی عظمت ہم چراغوں کا بھی اتنا ہی ادب کرتے ہیں ہم پہ حاکم کا کوئی حکم نہیں چلتا ہے ہم قلندر ہیں شہنشاہ لقب کرتے ہیں دیکھیے جس کو اسے دھن ہے مسیحائی کی آج کل شہر کے بیمار مطب کرتے ہیں خود کو پتھر سا بنا رکھا ہے کچھ لوگوں نے بول سکتے ہیں مگر بات ہی کب کرتے ہیں ایک اک پل کو کتابوں کی طرح پڑھنے لگے عمر بھر جو نہ کیا ہم نے وہ اب کرتے ہیں
میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں مگر اسے تو خبر ہے کہ کچھ نہیں ہوں میں عجیب لوگ ہیں میری تلاش میں مجھ کو وہاں پہ ڈھونڈ رہے ہیں جہاں نہیں ہوں میں میں آئنوں سے تو مایوس لوٹ آیا تھا مگر کسی نے بتایا بہت حسیں ہوں میں وہ ذرے ذرے میں موجود ہے مگر میں بھی کہیں کہیں ہوں کہاں ہوں کہیں نہیں ہوں میں وہ اک کتاب جو منسوب تیرے نام سے ہے اسی کتاب کے اندر کہیں کہیں ہوں میں ستارو آؤ مری راہ میں بکھر جاؤ یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں یہیں حسین بھی گزرے یہیں یزید بھی تھا ہزار رنگ میں ڈوبی ہوئی زمیں ہوں میں یہ بوڑھی قبریں تمہیں کچھ نہیں بتائیں_گی مجھے تلاش کرو دوستو یہیں ہوں میں