Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Vikas Sharma Raaz's Photo'

وکاس شرما راز

1973 | ہریانہ, انڈیا

ہندوستان کی نئی نسل کے ممتاز شاعر

ہندوستان کی نئی نسل کے ممتاز شاعر

وکاس شرما راز کے اشعار

8.6K
Favorite

باعتبار

روز یہ خواب ڈراتا ہے مجھے

کوئی سایہ لیے جاتا ہے مجھے

ایک کرن پھر مجھ کو واپس کھینچ گئی

میں بس جسم سے باہر آنے والا تھا

پجاری ہیں ازل سے میرؔ جی کے

وہی ہم ہیں وہی قشقہ ہمارا

زندگی کی ہنسی اڑاتی ہوئی

خواہش مرگ سر اٹھاتی ہوئی

سبھی کو راستہ بتا دیا گیا

یوں منزلوں کا قد گھٹا دیا گیا

اسے چھوا ہی نہیں جو مری کتاب میں تھا

وہی پڑھایا گیا مجھ کو جو نصاب میں تھا

میں تو کسی جلوس میں گیا نہیں

مرا مکان کیوں جلا دیا گیا

کوئی اس کے برابر ہو گیا ہے

یہ سنتے ہی وہ پتھر ہو گیا ہے

ہوا کے وار پر اب وار کرنے والا ہے

چراغ بجھنے سے انکار کرنے والا ہے

میں عدم کی پناہ گاہ میں ہوں

چھو بھی سکتی نہیں حیات مجھے

رفتہ رفتہ قبول ہوں گے اسے

روشنی کے لیے نئے ہیں ہم

مری عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں

مرے زوال کا قصہ بھی اس کتاب میں تھا

میں تو کسی جلوس میں گیا نہیں

مرا مکان کیوں جلا دیا گیا

بچھڑنے کا ہمیں امکان تو تھا

مگر اب دن مقرر ہو گیا ہے

جسے دیکھو غزل پہنے ہوئے ہے

بہت سستا یہ زیور گیا ہے

ایسی پیاس اور ایسا صبر

دریا پانی پانی ہے

جن کا سوجھا نہ کچھ جواب ہمیں

ان سوالوں پہ ہنس دیئے ہم لوگ

بلا کا حبس تھا پر نیند ٹوٹتی ہی نہ تھی

نہ کوئی در نہ دریچہ فصیل خواب میں تھا

میری کوشش تو یہی ہے کہ یہ معصوم رہے

اور دل ہے کہ سمجھ دار ہوا جاتا ہے

گھر میں وہی پیلی تنہائی رہتی ہے

دیواروں کے رنگ بدلتے رہتے ہیں

تنہا ہوتا ہوں تو مر جاتا ہوں میں

میرے اندر تو زندہ ہو جاتا ہے

محبت کے آداب سیکھو ذرا

اسے جان کہہ کر پکارا کرو

فقط زنجیر بدلی جا رہی تھی

میں سمجھا تھا رہائی ہو گئی ہے

کون تحلیل ہوا ہے مجھ میں

منتشر کیوں ہیں عناصر میرے

زمین بیچ کے خوش ہو رہے ہو تم جس کو

وہ سارے گاؤں کو بازار کرنے والا ہے

یہاں تک کر لیا مصروف خود کو

اکیلی ہو گئی تنہائی میری

دشت کی خاک بھی چھانی ہے

گھر سی کہاں ویرانی ہے

دیکھنا چاہتا ہوں گم ہو کر

کیا کوئی ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے

مجھ کو اکثر اداس کرتی ہے

ایک تصویر مسکراتی ہوئی

گھر سے نکلا تھا خودکشی کرنے

ریل کے ڈبے گن رہا ہوں میں

میری کوشش تو یہی ہے کہ یہ معصوم رہے

اور دل ہے کہ سمجھ دار ہوا جاتا ہے

مدتیں ہو گئیں حساب کئے

کیا پتا کتنے رہ گئے ہیں ہم

ارادہ تو نہیں ہے خودکشی کا

مگر میں زندگی سے خوش نہیں ہوں

ذرا سا دھیان کیا بھٹکا ہمارا

ہمیں پر آ گرا ملبہ ہمارا

تو بھی ناراض بہت ہے مجھ سے

زندگی تجھ سے خفا ہوں میں بھی

ہمارے درمیاں جو اٹھ رہی تھی

وہ اک دیوار پوری ہو گئی ہے

عشق بینائی بڑھا دیتا ہے

جانے کیا کیا نظر آتا ہے مجھے

یہ صدا کاش اسی نے دی ہو

اس طرح وہ ہی بلاتا ہے مجھے

ایک برس اور بیت گیا

کب تک خاک اڑانی ہے

اثر ہے یہ ہماری دستکوں کا

جہاں دیوار تھی در ہو گیا ہے

لفظ کی قید و رہائی کا ہنر

کام آ ہی گیا آخر میرے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے