بس اک کشاکش کا سلسلہ ہے ازل سے جو آج تک رہا ہے
بس اک کشاکش کا سلسلہ ہے ازل سے جو آج تک رہا ہے
فلک کی منکر زمیں رہی ہے زمیں کا منکر فلک رہا ہے
ہے اپنے بازو پہ ناز جن کو وہ زور بازو کا آزما لیں
وہ ساز کی سمت کیا بڑھے گا جو ہاتھ شمشیر تک رہا ہے
کہیں نہ سیلاب کرب بن کر ابل پڑے نغمہ زندگی کا
ہٹا لے اب اپنا ہاتھ مطرب کہ ساز کا دل دھڑک رہا ہے
تمہاری بخیہ گری مسلم مگر کہاں تک رفو کرو گے
مرے گریباں کا حال یہ ہے جگہ جگہ سے مسک رہا ہے
لگے گی ٹھوکر جو راستے میں تو اب نہ شاید سنبھل سکیں گے
خیال اک ان کا ہم سفر تھا سو وہ بھی دامن جھٹک رہا ہے
روایتوں کی کمی نہیں ہے ہدایتوں کی کمی نہیں ہے
قدم قدم پہ کھڑے ہیں رہبر مگر زمانہ بھٹک رہا ہے
مزاج تیشوں کا مضمحل ہے اٹھاؤ ساز شکستہ احساںؔ
سناؤ ماضی کے کچھ ترانے کہ حال کا دل دھڑک رہا ہے
جنوں کا موسم جو آ رہا ہے تو عقل کا دل دھڑک رہا ہے
ادھر بھی دامن پہ ہیں خراشیں ادھر بھی آنچل مسک رہا ہے
ادھر دل مضطرب خفا ہے ادھر تبسم میں بھی حیا ہے
ادھر خموشی اک التجا ہے ادھر تکلم بہک رہا ہے
مری نظر کو سنا رہا ہے تمہاری بے تابیوں کا قصہ
وہ ایک سایہ بہ رنگ شعلہ جو چلمنوں سے لپک رہا ہے
ہوا سے چلمن سرک رہی ہے نگاہ میری ٹھٹھک رہی ہے
کہ اب پرائی سمجھ کے اس کو تمہارا جلوہ جھجک رہا ہے
تمہاری الجھن سمجھ رہا ہوں میں اپنے دل سے الجھ رہا ہوں
کہ راستے بند ہو چکے ہیں تو پھر یہ کیوں راہ تک رہا ہے
تم اس طرف سے گزر چکی ہو مگر گلی گنگنا رہی ہے
تمہاری پازیب کا وہ نغمہ فضا میں اب تک کھنک رہا ہے
مئے محبت پلانے والی پیالہ اس کا چھلک نہ جائے
ابھی تو اتری نہیں گلے سے ابھی سے احساںؔ بہک رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.