گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل
تشریح
دوستو آج ناصر کاظمی کے ایک خوبصورت شعر کی تشریح کرتے ہیں، جس میں شاعر ایک انوکھے انداز میں اپنے محبوب سے اس کی بے اعتنائی، بے وفائی اور بے زاری کا گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ناصر کاظمی کے کلام میں آسان اور سہل انداز میں انسانی زندگی کے بیشتر معاملات کو بیان کیا گیا ہے، عشق کے مضامین کو پیش کیا گیا ہے، ہجر و وصال کے تاثرات کو بہت سادگی اور منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ناصر کاظمی کے اکثر شعروں میں یاد، پھول، رات، گلی، وحشت، تنہائی اور اداسی کے استعاروں سے بہت وسیع معنی کشید کرنے کا بے مثال اور لاثانی کام لیا گیا ہے۔ ان کے یہاں وحشت اور اداسی پوری زندگی پر محیط نظر آتی ہے، راستے اور گلیاں ان سے ہم کلام نظر آتے ہیں، پھول کی شگفتگی، یادوں کا کرب، بیزاری، بے کلی اور اداسی کے رنگ ان کو بہت تڑپاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نوسٹالجیا کا عنصر بہت نمایاں ہے اور اشعار میں یا تو تکلم کا لہجہ ہے یا خود کلامی کا سا انداز ہے جو ہر سننے اور پڑھنے والے پر جادو سا کردیتا ہے۔ اور ہر قاری یا سامع بقول غالب یہی سمجھتا ہے کہ ---
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس شعر میں بھی شاعر اپنے بے وفا دوست کے ہجر میں مبتلا نظر آتے ہیں اور اس کو اپنے دل کا ماجرا کچھ اس انداز میں سناتے ہیں کہ اگر ذرا بھی اس کو پاس ِ وفا ہے تو اس کو شاعر کی اس کیفیت پر بہت رنج ہو گا۔ شاعر اپنے بچھڑے ہوئے دوست، اپنے محبوب، اپنے ساتھی سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تو میری حدود ِ زندگی سے دور تو جا رہا ہے مگر یہ خیال رکھ کہ تاحدّ نظر تیری یاد بچھی ہوئی ہے۔ تجھے جب مجھ سے اتنی نفرت ہے کہ میری حدود سے اور میرے قرب سے بھی دور نکل رہا ہے تو یہ بھی خیال رکھ کہ جن راستوں سے ہو کر تُو گزر رہا ہے اور دور جا رہا ہے وہ سارے راستے تیری خوش نما یادوں سے مزین ہیں، ان پر تیری یادیں بچھی ہوئی ہیں۔ تیرے قدم کہیں ان یادوں پر نہ پڑ جائیں کہ یہ یادیں تو ان راستوں پر دور دور تک موجود ہیں ۔ تجھے مجھ سے نفرت اور بیزاری تو ہے، مگر میرے حلقئہ قرُب سے دور نکل جانا آسان نہیں ہے۔ آخر تو کن راہوں سے ہو کر مجھ سے دور جا سکے گا جب کہ سارے ہی راستے میری یادوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وہ کس طرح اپنے قدم ان یادوں سے بچا بچا کر نہ رکھ سکے گا جب کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے ۔ جس طرح میری زندگی کی حدود سے نکل کر دور جانا ممکن نہیں ہے اسی طرح تیرا میرے گرفت ِ خیال سے بھی دور جانا ممکن نہیں ہے۔
شاعر کا یہ شعر اس کے ہرجائی محبوب سے گلہ ہے، اس کی فریاد کا ایک انوکھا انداز ہے۔ اس کے ہجر کی ایک دل خراش تصویر ہے ۔ شاعر اپنے محبوب سے بہت محبت کرتا ہے۔ آخر سب اپنے محبوب سے بے انتہا محبت کرتے ہیں، سب اپنے محبوب کو بہت چاہتے ہیں، اپنے محبوب سے دوری بہت شاق گزرتی ہے، بہت تکلیف پہنچاتی ہے، بہت مشکلات کھڑی کر دیتی ہے، دن کو سکون ہوتا ہے نہ رات کو آرام ہوتا ہے، زندگی عجب سی بے کلی میں زندگی گزرتی ہے ۔ انسان اپنی زندگی کے تمام کام تو انجام دیتا ہے، مگر اس کا مرکز ِ خیال کچھ اور ہی ہوتا ہے وہ کسی اور دھُن میں ہوتا ہے۔ بقول آشفتہ چنگیزی :
الزام لگاتا ہے یہی ہم پہ زمانہ
تصویر بناتے ہیں کسی اور جہاں کی
شاعر بھی اپنے محبوب کو یاد کرتا ہے، یاد ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی یادوں میں غرق ہے اور اس سے کہتا ہے کہ یہ کام اتنا آسان اور اتنا سہل نہیں ہے کہ تم میرے خیال سے دور نکل سکوں گزر سکو۔ جن راہوں سے گزر کر تم میری دنیا سے دور جانا چاہتے ہوں وہ سب راہیں تمہاری یادوں کے حسین اور نازک انبار رکھتی ہیں۔ تم آخر کس طرح ان یادوں کو پامال کیے بنا گزر سکو گے !! آخر تم کس طرح میری زندگی سے، میرے تخیل سے، میری سوچ و فکر سے دور جا سکو گے !! پھر تم کس طرح مجھ سے بے وفائی کر سکو گے ؟ جب کہ میری زندگی کا ہر لمحہ ہر پل تمہاری یاد سے مزین ہے، تمہاری یاد سے دمک رہا ہے، تمہاری یاد سے فروزاں ہے، تمہاری یاد سے تاباں ہے، تمہاری یاد سے مہک رہا ہے ۔
شعر کے ظاہری حسن پر بھی جو کچھ کہا جاسکتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ جس انداز تکلم سے شاعر نے کام لیا ہے اور جن آسان الفاظ سے اس حقیقت کو بیان کیا ہے وہ بہت اچھوتا ہے ۔
سہیل آزاد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.