aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مرزا غالب کی فارسی رباعیات بھی مرزا غالب کے دیگر شعری اصناف کی طرح بلند پایا ہیں ،ان کے فارسی کلام کا کئی مترجمین نے اردو ترجمہ کیا ہے۔ زیر نظر کتاب "ہم کلام " غالب کی فارسی رباعیات کا منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی نے نہایت عمدہ انداز میں کیا ہے۔ یہ منظوم ترجمہ 1986 میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔ رباعیات کے اس منظوم ترجمے کے حوالے سے مجنوں گورکھپوری نے لکھا ہے کہ "مجھے تو یہ محسوس ہوتا ہے ،اگر غالب بھی اپنی فارسی رباعیات کا ترجمہ کرتے تو اسی طرح کرتے جس طرح صبا نے کیا ہے۔ صبا اکبرآبادی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، صحافی، مترجم اور ناول نگار تھے۔ انہیں شاعری میں نعت اور مرثیہ گوئی میں شہرت حاصل تھی۔
نام خواجہ محمد امیر، تخلص صباؔ ۔۱۴؍اگست۱۹۰۸ ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز ۱۹۲۰ء سے ہوا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۹۳۰ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے۔ تقسیم ہندکے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیار کی۔۱۹۶۱ء میں تقریباً ایک برس محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکریٹری رہے۔ بھر جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ۱۹۷۳ء تک کام کرتے رہے۔ غزل، رباعی، نظم ، مرثیہ ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام’’اوراق گل‘‘ اور ’’چراغ بہار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے پورے دیوان غالب کی تضمین کے علاوہ عمر خیام کی کوئی بارہ سو رباعیات کو اردو رباعی میں ترجمہ کیا ہے جس کا ایک مختصر انتخاب ’دست زرفشاں‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ صبا صاحب کے ترجمے کی دوسری کتاب’’ہم کلام‘‘ ہے جس میں غالب کی رباعیات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی مرثیوں کی تین کتابیں ’سربکف‘، ’شہادت‘اور ’خوناب‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ صبا اکبرآبادی ۲۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets