aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ازبک ادیب شرف رشیدوف ازبکستان کے مایہ ناز ادبیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ سیاسی سرگرمیوں میں گزرا لیکن یہ سیاسی سرگرمیاں انہیں ان کے ادبی ذوق سے نہ روک سکیں۔ زیر نظر کتاب ان کی نثر اور شاعری کا امتزاج ہے۔ ان میں سے کچھ نظمیں انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران میں لکھیں۔ رشیدوف کی نگارشات کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے ناستلجیا کو بڑی دلنشیں انداز میں برتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں وہ یادیں بہت عزیز ہیں جو ان کے والدین سے وابستہ ہیں۔ والد نے انہیں ہمیشہ کام سے محبت اور والدہ نے شاعری سے رغبت دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے وطن کے لوگ جب کمرتوڑ محنت سے چور ہو جاتے ہیں تو گیتوں سے اپنی تھکن مٹاتے اور غم غلط کرتے ہیں۔ ان کے اسی رویے کی بازگشت ان کی اس کتاب میں سنائی دیتی ہے۔اسی کتاب نے ان کی ادبی حیثیت کو مسلم کیا نیز انہیں ایک ادیب کے روپ میں مقبول بھی بنایا۔ اس کتاب کے نثری حصے کا ترجمہ حبیب الرحمان اور منظوم حصے کا ترجمہ ظ انصاری نے کیا ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free