aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"سب رس" ملا وجہی کی کتا ب ہے جسے اردو کی پہلی نثری کتاب ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔وجہی نے اپنی کتاب کو تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کی کتاب اردو کی پہلی کتاب کے طور پر جانی جاتی ہے۔ یہ کتاب دکن میں قطب شاہی عہد میں لکھی گئی۔ وجہی اس کی زبان کو ہندوستانی زبان کہہ کر یاد کرتا ہے ۔ کتاب کی زبان اپنے عہد کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ بعض جگہ پر وہ دکنی اور ہندی، فارسی، عربی،سنسکرت کے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے۔ اپنے زمانے میں اس کی یہ کتاب بہت ہی خوصورت نثر کا نمونہ سمجھی جاتی تھی۔ اسلئے آج کے اعتبار سے جو اس کتاب میں نقص پایا جاتا ہے، وہ مرور زمانہ اور زبان کی ترقی کی وجہ سے ہے، ناکہ کتاب کی خامی کی وجہ سے ۔ وجہی نے اس کتاب میں تمثیلی انداز میں حسن و عشق کی داستان کو بیا ن کیا ہے ۔ بہت سے لوگ وجہی کو اردو انشائیہ نگاری کا باوا آدم قرار دیتے ہیں ۔ وجہی نے اس فرضی داستان میں جگہ جگہ صوفیانہ خیالات ، مذہبی روایات اور اخلاقی تعلیمات کی تیغوگ کی ہے ۔ وجہی کی یہ کتاب کلاسیکی نثر کا بہترین نمونہ ہے ۔ آج کتاب کے بیشتر الفاظ متروک ہیں اور ویسے بھی ہر ایک کے لئے دکنی پڑھنا خاٖصا مشکل امر ہے اسی لئے زیر نظر سب رس کو جدید اردو کا پیراہن عطا کیا گیا ہے تاکہ داستان کی آسانی سے تفہیم ہوسکے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free