آزادی کا منظر اچھا لگتا ہے
آزادی کا منظر اچھا لگتا ہے
شیش محل سے چھپر اچھا لگتا ہے
تاج امیر شہر مبارک ہو تجھ کو
دیوانوں کو پتھر اچھا لگتا ہے
بچپن کب کا بیت چکا پھر بھی مجھ کو
ماں کے ہاتھ کا بستر اچھا لگتا ہے
میرے لہو کو پانی کی اب چاہ کہاں
خشک گلے پر خنجر اچھا لگتا ہے
تیری یاد کا چاند نکلتا ہے جس دم
مجھ کو اکیلے شب بھر اچھا لگتا ہے
اپنوں میں تنہائی کا اب احساس نہ پوچھ
گھر والوں سے بے گھر اچھا لگتا ہے
کون ہے کس پہ نذر کریں ہم سر اپنا
ہم کو تیرا سنگ در اچھا لگتا ہے
اپنی ذات کے اندر کب تک قید رہوں
مجھ کو خود سے باہر اچھا لگتا ہے
ماں کے ہاتھ کے بھات کے لذت مت پوچھو
ساتھ میں اس کے کنکر اچھا لگتا ہے
ہمت ہے تو دشمن سے بھی پیار کرو
یوں تو سب کو دل بر اچھا لگتا ہے
جب بھی نماز فجر ادا کر لیتے ہیں
قسم خدا کی دن بھر اچھا لگتا ہے
ورنہ پیاس ہی دل کو بہلاتی ہے حلیمؔ
تیرے نام کا ساغر اچھا لگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.