اب کہاں تخمینۂ سود و زیاں رکھتا ہوں میں
اب کہاں تخمینۂ سود و زیاں رکھتا ہوں میں
بے مکاں ہوں رسم و راہ لامکاں رکھتا ہوں میں
ایک جنت زاد آنکھوں میں سمایا تھا کبھی
آج تک پلکوں پہ بار کہکشاں رکھتا ہوں میں
کیا کہا رکھتا ہوں میں رنجش یزید وقت سے
بات نکلی ہے تو سن لے آج ہاں رکھتا ہوں میں
جس طرف بھی جائیے ہے گونگی آنکھوں کا ہجوم
بے سبب آنکھوں کو اب رطب اللساں رکھتا ہوں میں
عشق میں اور جنگ میں جائز ہے سب یہ سوچ کر
شہر کو اس کے تئیں کچھ بد گماں رکھتا ہوں میں
کوچہ کوچہ آپ سے منسوب اپنا کچھ نہیں
کس قدر بیگانہ شہر جسم و جاں رکھتا ہوں میں
گفتگو میں ہو زباں مقراض خو لازم نہیں
بے زبانی میں بھی اک طور بیاں رکھتا ہوں میں
ٹھوکروں کی چیز تھی دنیا مگر ہے تاج سر
کس جگہ رکھنا تھا اس کو اور کہاں رکھتا ہوں میں
آسماں سر پر اٹھا لینا ہے مجبوری نظیرؔ
دسترس میں بس زمیں پر آسماں رکھتا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.