بدن میں زہر تھا یا اضطراب تھا کیا تھا
بدن میں زہر تھا یا اضطراب تھا کیا تھا
یہ زندگی میں مسلسل عذاب تھا کیا تھا
سماعتوں سے بدن تک تھا چھلنی چھلنی تمام
کسی کا لہجہ تھا یا آفتاب تھا کیا تھا
وہ جس کی دید سے آنکھیں ہماری خیرہ ہوئیں
کسی کا حسن تھا یا ماہتاب تھا کیا تھا
میں بھاگتا ہی رہا تشنگی بجھی نہ مری
یہ میرا وہم تھا یا پھر سراب تھا کیا تھا
گرا گیا ہے جو شاداب سبز پیڑوں کو
وہ زلزلہ تھا کہ کوئی عذاب تھا کیا تھا
جو میری چشم فلک پر کبھی ٹھہر نہ سکا
سحاب تھا کہ حسیں ایک خواب تھا کیا تھا
میں اپنے آپ کو حل کر سکا نہ آخر تک
مرا وجود معمہ تھا خواب تھا کیا تھا
فساد پھوٹ پڑا شہر میں مرے نقویؔ
ستم تھا قہر تھا یوم الحساب تھا کیا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.