برق کے سائے میں کیف آشیاں سمجھا تھا میں
برق کے سائے میں کیف آشیاں سمجھا تھا میں
ہر مآل رنگ و بو کو گلستاں سمجھا تھا میں
ہر نمود عشق میں سوز نہاں سمجھا تھا میں
شاہکار حسن کو آتش بجاں سمجھا تھا میں
رنج و غم سے ارتباط جسم و جاں سمجھا تھا میں
ہستئ ناکام کو خواب گراں سمجھتا تھا میں
عشق فانی کو نشاط جاوداں سمجھا تھا میں
زندگی کے راز کو اب تک کہاں سمجھا تھا میں
دل کے ہر پردے سے آتی تھیں صدائیں درد کی
بربط ہستی پہ تم کو نغمہ خواں سمجھا تھا میں
کیا خبر تھی دل ہی میرا آستان ناز ہے
دل کو اب تک بے نیاز آستاں سمجھا تھا میں
اس لئے میں التفات خاص سے محروم ہوں
جوشش سعئ طلب کو رائیگاں سمجھا تھا میں
اے جنون جستجو راہ طلب میں بار بار
ہر غبار کارواں کو کارواں سمجھا تھا میں
سن رہا تھا کیفیات زندگی کے واقعات
ان کے افسانے کو اپنی داستاں سمجھا تھا میں
بے نیاز بندگئ شوق تھی میری خودی
بے خودی میں احترام آستاں سمجھا تھا میں
اس قدر ڈوبا ہوا تھا اعتبار شوق میں
ہر فریب آشیاں کو آشیاں سمجھا تھا میں
غنچہ و گل ہی پہ کیا موقوف تھا راز جمال
ذرہ ذرہ کو چمن کے رازداں سمجھا تھا میں
دل کی ہر تفسیر پر خاموشیاں دیتی تھیں داد
انجمن والوں کو محو داستاں سمجھا تھا میں
آپ کی ذات گرامی کا نہ عرفاں کر سکا
آپ کو لیکن شریک کارواں سمجھا تھا میں
جب شکست ساز دل کی زیبؔ جھنکاریں سنیں
دل کی ہر دھڑکن پہ تم کو نغمہ خواں سمجھا تھا میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.