چمن کل تھا جو صحرا ہو گیا ہے
عجب روحوں کا ڈیرا ہو گیا ہے
تماشا سب نظر کا ہو چکا بس
بدن کا رنگ گہرا ہو گیا ہے
وہ آہٹ آج کیسی بے صدا ہے
یہ مجھ میں کون بہرا ہو گیا ہے
یہ دریا سارا پتھر بن چکا ہے
یا یہ احساس گہرا ہو گیا ہے
پرندہ خوں سے تر آنکھوں میں اڑتا
سفر اپنا سنہرا ہو گیا ہے
میں جن سڑکوں پر اکثر گھومتا تھا
وہاں پر آج پہرا ہو گیا ہے
وہ میرا ہاتھ تھامے کہہ رہا ہے
چلو گھر اب اندھیرا ہو گیا ہے
بس اک آواز گھر میں گونجتی ہے
ذرا سو لے سویرا ہو گیا ہے
سنے گا کیا ستاروں کی صدائیں
مرا آکاش بہرا ہو گیا ہے
بچھڑ کر خود سے میں روتا تھا پہروں
یہ صدمہ بھی اکہرا ہو گیا ہے
میں اس کے غم میں اجملؔ ڈوبتا کیا
سمندر اور گہرا ہو گیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.