ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا (ردیف .. ے)
ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
ظاہراً کاغذ ترے خط كا غلط بردار ہے
جی جلے ذوق فنا کی ناتمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی درماندگی میں نالہ سے ناچار ہے
ہے وہی بد مستی ہر ذرہ كا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے
مجھ سے مت کہہ تُو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے
آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرت دیدار ہے
بس کہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے
ناخن انگشت بت خال لب بیمار ہے
زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ
ورنہ صد محشر بہ رہن صافیٔ رخسار ہے
در خیال آباد سودائے سر مژگان دوست
صد رگ جاں جادہ آسا وقف نشتر زار ہے
بسکہ ویرانی سے کفر و دیں ہوئے زیر و زبر
گرد صحرائے حرم تا کوچۂ زنار ہے
اے سر شوریدہ ناز عشق و پاس آبرو
یک طرف سودا و یکسو منت دستار ہے
وصل میں دل انتظار طرفہ رکھتا ہے مگر
فتنہ تاراج تمنا کے لیے درکار ہے
خانماں ہا پائمال شوخیٔ دعوے اسدؔ
سایۂ دیوار سیلاب در و دیوار ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.