فسانہ عشق کا وہ اس طرح دہرائے جاتے ہیں
فسانہ عشق کا وہ اس طرح دہرائے جاتے ہیں
زباں خاموش ہے نظروں سے کچھ سمجھائے جاتے ہیں
کسی نے بے رخی سمجھا کوئی لطف و کرم سمجھا
کچھ اس انداز سے محفل میں وہ شرمائے جاتے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو یا رب مری توبہ پہ بن آئے
یہ بادل آج گھر گھر کر مجھے بہکائے جاتے ہیں
مجھے اب دل کی دھڑکن سے یہی محسوس ہوتا ہے
تمناؤں کی دنیا میں وہ جیسے آئے جاتے ہیں
قفس اچھا ہے ایسے آشیاں سے اے چمن والو
جہاں ظلم و ستم ہر وقت ہم پر ڈھائے جاتے ہیں
قدم چومے گی ان کے کامیابی ایک دن بڑھ کر
سفینہ اپنا جو طوفان سے ٹکرائے جاتے ہیں
وفور شوق میں اے دردؔ میرا اب یہ عالم ہے
جدھر نظریں اٹھاتا ہوں وہیں وہ پائے جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.