فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
خون ہی خون مجھے رنگ سحر لگتا ہے
علم کی دیو قدی دیکھ کے ڈر لگتا ہے
آسمانوں سے اب انسان کا سر لگتا ہے
مجھ کو لگتا ہے نشیمن کی مرے خیر نہیں
جب کسی شاخ پہ گلشن میں تبر لگتا ہے
مان لو کیسے کہ میں عیب سراپا ہوں فقط
میرے احباب کا یہ حسن نظر لگتا ہے
کل جسے پھونکا تھا یا کہہ کے کہ دشمن کا ہے گھر
سوچتا ہوں تو وہ آج اپنا ہی گھر لگتا ہے
فن ہے وہ روگ جو لگتا نہیں سب کو لیکن
جس کو لگتا ہے اسے زندگی بھر لگتا ہے
احتیاطاً کوئی در پھوڑ لیں دیوار میں اور
شور بڑھتا ہوا کچھ جانب در لگتا ہے
ایک دروازہ ہے ہر سمت نکلنے کے لئے
ہو نہ ہو یہ تو مجھے شیخ کا گھر لگتا ہے
چمن شعر میں ہوں اک شجر زندہ مگر
ابھی ملاؔ مری ڈالی یہ ثمر لگتا ہے
- کتاب : Kulliyat-e-Anand Narayan Mulla (Pg. 645)
- Author : Khaliq Anjum
- مطبع : National Council for Promotion of Urdu Language-NCPUL (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.