ہائے کیسا یہ زمانے کا اثر لگتا ہے
ہائے کیسا یہ زمانے کا اثر لگتا ہے
جس کو دیکھو وہی افسردہ بشر لگتا ہے
خوں کے رشتوں کا بھی اب کوئی تقدس نہ رہا
اپنا گھر بھی مجھے اب غیر کا گھر لگتا ہے
دئے جاتا ہے بہت ذہنی اذیت مجھ کو
دشمن جان مرا لخت جگر لگتا ہے
گھر کا شیرازہ بکھر جائے گا معلوم نہ تھا
اب یہ گھر ہی مجھے آسیب کا گھر لگتا ہے
باپ کا باپ بنا بیٹھا ہے بیٹا گھر میں
اور اگر باپ کو دیکھو تو پسر لگتا ہے
اب برائی پہ بھی غیرت نہیں انسانوں کو
اب ہر اک عیب بہ انداز ہنر لگتا ہے
ہم کسی شخص کو کچھ کہنے کے قابل نہ رہے
اپنا ہی حال بس اب زیر و زبر لگتا ہے
یہ ہے اندیشہ زباں پر نہ لگے قفل کہیں
یوں کوئی بات بھی کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے
جان لیوا یہی حالات رہے تو اک دن
اپنا دنیا سے بہت جلد سفر لگتا ہے
پس مژگاں ہے تو اس میں ہے سمندر پنہاں
اشک جب پلکوں پہ آتا ہے گہر لگتا ہے
خون سے سینچ کے پودے کو بڑا کرتے ہیں
تب کہیں جا کے وہ اے یاسؔ شجر لگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.