ہے عجب شغل مرا رات کے ڈھل جانے تک
ہے عجب شغل مرا رات کے ڈھل جانے تک
دیکھتا رہتا ہوں تارا کوئی جل جانے تک
پھر سلا دے گا اسے بحر کا اک گہرا سکوت
مستی ہے موج میں ساحل پہ مچل جانے تک
کیا ہوا اس کی گرہ میں ہے اگر اک دوری
میں بھی تو اس کا ہوں بس اس کے بدل جانے تک
پھر وہی میں مرا پھر ہوگا وہی کار جہاں
بات ساری ہے کسی غم کے بہل جانے تک
وہ ضرورت سے زیادہ ہی فراغت تھی کہ میں
جس میں پھرتا رہا حسرت کے نکل جانے تک
میرا اک عذر وہ سنتا رہا خاموشی سے
اور میں بیٹھا رہا برف پگھل جانے تک
روک رکھنی ہے کہیں ایک جگہ درد کی رات
کسی بیمار کی حالت کے سنبھل جانے تک
رزق مٹی کا مرا خوں نہیں بننے والا
صبح کے چہرے پہ غازہ کوئی مل جانے تک
عین ممکن ہے ٹھہر جائے کہیں آج کا دن
اور یہ ٹھہرا ہی رہے یوں ترے کل جانے تک
ایک آتش ہے کہ دہکائے ہوئے رکھتی ہے
کسی زنجیر کے حلقوں کے پگھل جانے تک
میں بھی شاہیںؔ اسے ملنے نہیں جانے والا
اس کے اندر سے کسی بل کے نکل جانے تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.