ہمیں یقیں تھا کہ ہم دوستوں میں رہتے ہیں
ہمیں یقیں تھا کہ ہم دوستوں میں رہتے ہیں
جو گھر جلا تو لگا دشمنوں میں رہتے ہیں
ہم اک کرن ہیں مگر بادلوں میں رہتے ہیں
بچھڑ کے تم سے بڑی الجھنوں میں رہتے ہیں
ہمارے جینے کی اب یہ مثال ہے جیسے
کٹے پٹے ہوئے جملے خطوں میں رہتے ہیں
انہی سی چوٹ بھی لگتی ہے سر بلندوں کو
جو پتھروں کی طرح ٹھوکروں میں رہتے ہیں
جو چہرے چاند سے لگتے ہیں محفلوں میں ہمیں
وہ شمع کشتہ کی صورت گھروں میں رہتے ہیں
کچھ ایسے پھول ہیں جن کو ملا نہیں ماحول
مہک رہے ہیں مگر جنگلوں میں رہتے ہیں
وطن کی خیر مناؤ کہ دشمنان وطن
سحر سے شام تلک سازشوں میں رہتے ہیں
ہمارے شہر میں انسان اب نہیں رہتے
ہم اپنے شہر کی پرچھائیوں میں رہتے ہیں
انہیں کو میرے غموں کی خبر نہیں ہے بشیرؔ
جو روح بن کے مری دھڑکنوں میں رہتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.