ہوائے شام چلے تو بکھرنے لگتی ہوں
ہوائے شام چلے تو بکھرنے لگتی ہوں
میں دشت دل سے سمٹ کر گزرنے لگتی ہوں
ازل سے تا بہ ابد ایک لمحہ میرا ہے
تری نگاہ میں جس دم ٹھہرنے لگتی ہوں
نظر کے لمس سے رنگ بدن چھپاتی رہی
میں تتلیوں کی طرح کیوں کہ مرنے لگتی ہوں
ملی فراق کے آئینے میں پناہ مجھے
وصال حرف میں ڈھل کر سنورنے لگتی ہوں
ورق پہ سادہ تمنا کے خال و خد ہیں مگر
میں سوچ کر تجھے کچھ رنگ بھرنے لگتی ہوں
جب آگہی کے خد و خال دیکھتی ہوں کبھی
تو اپنے حسن تحیر سے ڈرنے لگتی ہوں
اگر تو وعدہ نبھاتا نہیں تو اس لمحے
میں اپنے آپ سے بھی خود مکرنے لگتی ہوں
- کتاب : ردائے ہجر (Pg. 106)
- Author : تسنیم عابدی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.