الٰہی جیسے ہم اس شمع انجمن سے ملے
الٰہی جیسے ہم اس شمع انجمن سے ملے
اسی طرح سے ہر اک اپنے گل بدن سے ملے
ملے نہ شیخ سے دل اور نہ برہمن سے ملے
ملے تو اس کے رخ و زلف پرشکن سے ملے
موے پہ قبر میں کون اور خستہ تن سے ملے
کفن بدن سے ملے اور بدن کفن سے ملے
نہ تنگ کر مجھے اس نے کہاں یہ منہ پایا
کہ گل کا غنچہ ترے غنچۂ دہن سے ملے
بھلا دے اس کو ابھی پل میں چوکڑی ساری
نگاہ شوخ اگر آہوئے ختن سے ملے
خدا نے قطع کیا ہے تجھی پہ یہ جامہ
پھبن کسی کا ترے کس طرح پھبن سے ملے
وہ چھوڑے کیونکہ بھلا مشق دل جلانے کی
مزہ جسے دل آشفتہ کی جلن سے ملے
یہاں تو پیچ اٹھایا کرے دل صد چاک
ستم ہے شانہ وہاں زلف پر شکن سے ملے
فضائے سینہ میں یوں ہے ہجوم آہوں کا
درخت جیسے کہ آپس میں ہویں گھن سے ملے
ہوا یہ ہے ہمیں ارشاد مشفقانہ جو کل
ہم ایک بزم میں ہاں ایک اہل فن سے ملے
کہ یاد رکھ تو ہے شعروں میں عیب ربط کلام
وہ شعر ہوں کہ نہ ہرگز سخن سخن سے ملے
اور ایک اس کے سوا یاد رکھ یہ ہے خوبی
وہ طرز ہو کہ نہ طرز نو و کہن سے ملے
پھر اس کے بعد دم سرد بھر کے فرمایا
یہ نکتے ہم کو سنا تھے بڑے جتن سے ملے
سویرے آگے بیاں ہم نے کر دیے یوں ہی
بیان کیجیو جو شائقان فن سے ملے
زہے نصیب تجھے اس طرح ملی دولت
وہ جو ملے بھی کسی کو تو ایک کٹھن سے ملے
کہیں سنیں گے ہم آپس میں درد دل اپنا
چمن میں عیشؔ جو ہم بلبل چمن سے ملے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.