اس طرف سے اس طرف تک خشک و تر پانی میں ہے
اس طرف سے اس طرف تک خشک و تر پانی میں ہے
اب سمندر سے سمندر تک نظر پانی میں ہے
میری آنکھوں میں ادھر منظر ہے اپنی موت کا
اور کوئی ڈوبنے والا ادھر پانی میں ہے
جانے کب میرے سمندر کو کوئی ساحل ملے
کب سے میرا جسم سرگرم سفر پانی میں ہے
کشتی انفاس زیر آب بھی ہے شعلہ بار
تہہ بہ تہہ جیسے کوئی موج شرر پانی میں ہے
جل گیا ہوتا شعاع مہر سے یہ شہر بھی
خیریت گزری کہ خوابوں کا نگر پانی میں ہے
اس بلندی سے لگاؤں کس طرف اب میں چھلانگ
ایک در ہے دشت میں تو ایک در پانی میں ہے
ہو چکے ہیں کب کے چکنا چور آئینے سبھی
یہ تو محسنؔ اپنا ہی عکس نظر پانی میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.