اسی کو ہاں اسی کو عشق کا نذرانہ کہتے ہیں
دلچسپ معلومات
(23جولائی 1945 ء)
اسی کو ہاں اسی کو عشق کا نذرانہ کہتے ہیں
سرشک غم کو یعنی گوہر یک دانہ کہتے ہیں
ہنسی آتی ہے مستوں کو جنوں نا آشناؤں پر
کرے جو ہوش کی باتیں اسے دیوانہ کہتے ہیں
کسی کو غم کسی کا ہے کسی کو غم کسی کا ہے
بعنوان دگر سب ایک ہی افسانہ کہتے ہیں
اٹھا دے گی انہیں دنیا کسی دن اپنے ہاتھوں سے
جو اس مہماں سرا میں خود کو صاحب خانہ کہتے ہیں
نہیں احساس کچھ بھی اپنی محسن نا شناسی کا
چمن میں رہ کے بھی سبزہ کو ہم بیگانہ کہتے ہیں
تصور نے بدل دی ہے دل برباد کی صورت
یہ کعبہ تھا مگر اب ہم اسے بت خانہ کہتے ہیں
سمائی رکھنے والوں کا دہن وا ہو نہیں سکتا
جو ہیں کم ظرف راز بادہ و پیمانہ کہتے ہیں
سمجھ سکتا نہیں کوئی زباں اہل محبت کی
جسے اپنا سمجھتے ہیں اسے بیگانہ کہتے ہیں
نظر آتا نہیں دنیا کا نقشہ معتبر کوئی
اسے بستی سمجھتے ہیں نہ ہم ویرانہ کہتے ہیں
بقدر آرزو کوئی یہاں رہنے نہیں پاتا
غلط کیا ہے جو دنیا کو مسافر خانہ کہتے ہیں
پتنگے ہی کے سر صحرا بندھے کیوں سرفروشی کا
جو اپنی جان پر کھیلے اسے پروانہ کہتے ہیں
عقیدت سے سر مومن جھکا ہے سنگ اسود پر
اسی کو اتحاد کعبہ و بت خانہ کہتے ہیں
نظر آتا ہے سرمستی کا عالم ذرے ذرے میں
اسی نسبت سے ہم دنیا کو اک مے خانہ کہتے ہیں
نظرؔ اور شادؔ کی غزلوں پہ طالبؔ کا غزل کہنا
وہ جرأت ہے جسے سب جرأت رندانہ کہتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.