اتنے جھیلے گئے الفت میں وہ آزار کہ بس
اتنے جھیلے گئے الفت میں وہ آزار کہ بس
روح بھی لگنے لگی ہے مری بیمار کہ بس
آج کے دور کا اے دوست یہ کردار کہ بس
لہجہ ہر شخص کا جیسے کوئی تلوار کہ بس
ہر طرف لوگ برہنہ سے نظر آتے ہیں
ایسے ہوتے ہیں ترے شہر کے بازار کہ بس
تیری مرضی تو جہاں چاہے ہمیں لے جائے
ہم نے دے دی ہے ترے ہاتھ میں پتوار کہ بس
ظلم سہ کر بھی جو خاموش کھڑے رہتے ہیں
وہ سبھی ہوتے ہیں ظالم کے طرفدار کہ بس
اس جگہ ہوتی ہے شیطاں کی حکومت یارو
سر اٹھاتی ہے جہاں پر بھی یہ تکرار کہ بس
ایسے ملتے ہیں سگے بھائی بھی ہم سے عاطفؔ
درمیاں جیسے کھڑی ہو کوئی دیوار کہ بس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.