جاں کبھی دن سے کبھی رات سے ٹکراتی ہے
جاں کبھی دن سے کبھی رات سے ٹکراتی ہے
ایک کشتی کئی خطرات سے ٹکراتی ہے
دل کی مڈبھیڑ تری یاد سے ہوتی ہے کہیں
تیرگی نور کے ذرات سے ٹکراتی ہے
ایک حالت کا کوئی حال نہیں ہے مجھ میں
ایک حالت ہے کہ حالات سے ٹکراتی ہے
آہ کے چیتھڑے آفاق میں اڑتے ہیں کہیں
بے کسی ارض و سماوات سے ٹکراتی ہے
راہ پاتی نہیں منظر سے نکلنے کے لیے
حیرت اپنے ہی طلسمات سے ٹکراتی ہے
کائناتیں مری تشریح طلب ہیں اب تک
اک مساوات مساوات سے ٹکراتی ہے
سانس ہوتی نہیں ہستی کی نمو میں حائل
روح کب جسم کے خلیات سے ٹکراتی ہے
ضبط بھی ٹوٹ نہ جائے کہیں پشتے کی طرح
لہر خطرے کے نشانات سے ٹکراتی ہے
گرم رہتی ہے ترے رنج سے سینے کی فضا
دھوپ شیشے کے مکانات سے ٹکراتی ہے
سلسلہ آگے بڑھاتی ہے صبا موج بہ موج
ایک بات اگلی کسی بات سے ٹکراتی ہے
نا توانائی توانائی کی ہی شکل نہ ہو
پیری سر باب مناجات سے ٹکراتی ہے
متصادم ہے فراموشی فراموشی سے
سانس شبنم کے بخارات سے ٹکراتی ہے
دل ہے ماقبل قدیم آنکھ ہے مابعد جدید
ہستی اپنے ہی تضادات سے ٹکراتی ہے
بے خیالی کے کنارے پہ کہیں بیٹھا ہوں
ایک لہر آتی ہے جذبات سے ٹکراتی ہے
اس کی آمد بھی توارد کی طرح ہے شاہدؔ
خبر اوروں کے خیالات سے ٹکراتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.