جان لب پر آ گئی فرقت میں بس گھبرا چکے
جان لب پر آ گئی فرقت میں بس گھبرا چکے
اب وہ آئیں یا نہ آئیں ہم تو جی سے جا چکے
ناز و انداز و ادا کو کام تم فرما چکے
کھول کر بند اب لپٹ جاؤ بہت شرما چکے
اس کے آنے کی نہ ٹھہری سو طرح غم کھا چکے
جان ہے جائے کہیں قصہ مٹے جھگڑا چکے
انتظار ان کا عبث اے دل ہے بس وہ آ چکے
خط جو بھیجے تھے جواب صاف قاصد لا چکے
کھینچ کر آہیں منغص اس کو کر دیتا ہے تو
یار کو صد بار اے دل ہم منا کر لا چکے
پھاڑ کر کپڑے چلے صحرا کو ہم وحشت زدہ
نکہت گل کی طرح ہم پھر کے گھر کو آ چکے
جب نہ اک بوسہ ہی دو تم اور نہ اک دشنام دو
دل تمہیں کیوں کر ملے اور اس کی قیمت کیا چکے
مجھ کو طعنہ اور مہ رویوں سے ملنے کا دیا
میں بھی اب کچھ عرض کر لوں آپ تو فرما چکے
تھا حجاب عشق مانع ورنہ شب کو وصل میں
ہاتھ ان پاؤں تلک سو بار ہم پہنچا چکے
دم الٹتا ہے مرا رخ سے الٹ دیجے نقاب
بے حجابی سے تسلی کیجئے شرما چکے
اپنے اس دیوانہ پن سے دل نہ باز آیا کبھی
قید زنداں میں رکھا زنجیر تک پہنا چکے
جوں قفس صد چاک دل ہے حسرت پرواز سے
مرغ گل کا شاخ گل سے ہم قفس لٹکا چکے
وصل کی شب ہے کف پا اپنے سہلانے تو دو
ہجر میں ہم سے کف افسوس تو ملوا چکے
ہائے اس گل نے نہ کی اس دل کی چاہت پر نظر
زخم کھائے تن پہ لاکھوں سیکڑوں گل کھا چکے
ناتوانی کا بہانہ گہ کیا گہ موت کا
ان کے رہ جانے کو ہم تو سوانگ لاکھوں لا چکے
اس نے پر رہنے نہ ہم کو واں دیا کیا کیجئے
پاؤں کس کس طرح اس کے در پہ ہم پھیلا چکے
صید معنی کوئی دولہؔ اپنے ہاتھ آتا نہیں
توسن فکر اپنا اس میداں میں ہم دوڑا چکے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.