جہاں عقل کا بھی گزر نہ ہو جہاں عشق کا بھی اثر نہ ہو
جہاں عقل کا بھی گزر نہ ہو جہاں عشق کا بھی اثر نہ ہو
مجھے اس جگہ کی تلاش ہے جہاں خود کو خود کی خبر نہ ہو
یہ روا نہیں کسی طور بھی اسے میرے دل کی خبر نہ ہو
شب وصل کی جو دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو
میں سمجھ رہی ہوں دگر جسے وہ حریف میرا جگر نہ ہو
میں فراز دار سے دیکھ لوں کہیں کاروان سحر نہ ہو
کہیں وقت بھی نہ ہو بد گماں مرے ضبط کا نہ لے امتحاں
میں گرہ جو زلف کی کھول دوں تو نصیب تجھ کو سحر نہ ہو
نہ زمیں رہے نہ تو آسماں رہے کچھ اگر تو دھواں دھواں
مجھے ڈر تو ہے اسی بات کا جو خلش ادھر ہے ادھر نہ ہو
وہ حیات نو کے ہوں مرحلے کہ ہوں حسن و عشق کے فلسفے
ہے وہ گفتگو کوئی گفتگو ترے دل پہ جس کا اثر نہ ہو
یہی سربلندی کا راز ہے یہی عبدیت کا خراج ہے
ملے ابدیت کا شرف کہاں ترے در پہ گر مرا سر نہ ہو
کہاں چشم کوثرؔ ناتواں کہاں حسن کی وہ تجلیاں
اسے دیکھنے کی تو ضد نہ کر کہیں گل چراغ نظر نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.