جلوؤں کی ترے لائے کوئی تاب کہاں تک
جلوؤں کی ترے لائے کوئی تاب کہاں تک
ہر شے میں نمایاں ہیں نظر جائے جہاں تک
ملنے کو تو مل جائیں ابھی دونوں جہاں تک
کم بخت دعا آ بھی چکے دل سے زباں تک
ہم خاک نشینوں کی رسائی ہے وہاں تک
پہنچے نہ فرشتوں کا جہاں وہم و گماں تک
پہنچا دیا ساقی نے در پیر مغاں تک
اور سیر خرابات نے کیا جانے کہاں تک
کعبہ میں کلیسا میں اسے ڈھونڈ کے آخر
حد یہ ہے کہ آ پہنچے ہیں اب کوئے بتاں تک
الفت بھی ہے کیا چیز شکایت کی کوئی بات
اٹھی بھی اگر دل سے تو آئی نہ زباں تک
ہونے کو سحر آئی ہے خاموش ہو اے شمع
تو سوزش پروانہ پہ روئے گی کہاں تک
زاہد کے لئے قصر بھی حوریں بھی جناں بھی
لیکن نہیں رندوں کے لئے ایک دکاں تک
وعدہ تو وفا ہو کہ نہ ہو یہ ہے شکایت
لب سے کبھی نکلی نہیں تسکین کو ہاں تک
کیا کیا نہ ہنسی ابرو و مژگاں نے اڑائی
پہنچی جو کبھی بات ذرا تیغ و سناں تک
نور سحر و رنگ سحر پر نہیں موقوف
دشمن ہے شب وصل میں آواز اذاں تک
جادو ہے اداؤں میں نگاہوں میں کرشمے
ایسوں سے بچائے کوئی ایمان کہاں تک
ساقی کا کرم دیکھ کہ اک آن میں شاغلؔ
پہنچا ہی دیا بارگہہ پیر مغاں تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.