جھونپڑوں پر مفلسی کے خوب چلاتی ہے دھوپ
جھونپڑوں پر مفلسی کے خوب چلاتی ہے دھوپ
ہاں مگر دیکھا کہ زرداروں سے شرماتی ہے دھوپ
گردشوں سے تھک کے گھر میں جب پڑا رہتا ہوں میں
صحن خانہ میں مرے تلووں کو سہلاتی ہے دھوپ
چھین لیتی ہے کبھی چہروں سے گل شادابیاں
اور کبھی ٹھٹھرے ہوئے جسموں کو گرماتی ہے دھوپ
پھیرتی ہے بستیوں پر ہاتھ جتنے پیار سے
طیش میں اتنے ہی صحراؤں پہ بل کھاتی ہے دھوپ
رحم کا احساس تک فطرت میں اس کی ہے گناہ
برہنہ جسموں پہ اکثر آگ برساتی ہے دھوپ
برہنہ پا دھوپ کو روندے جو کوئی نازنیں
اپنی اس توہین پر بھی تلملا جاتی ہے دھوپ
چھت نہ ہونے سے اندھیروں کا نہیں ہوتا گزر
گھر میں فیضیؔ کے مگر ہمدم اتر آتی ہے دھوپ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.