جو ہر دم ذہن میں چبھتی ہے وہ سلوٹ نہیں جاتی
جو ہر دم ذہن میں چبھتی ہے وہ سلوٹ نہیں جاتی
کہ بستر پر بھی میرے دل کی گھبراہٹ نہیں جاتی
میں اپنی زندگی سے برسر پیکار ہوں پھر بھی
انا کے صحن سے احساس کی آہٹ نہیں جاتی
سر مغرور کو چوکھٹ کی عظمت کھینچ لیتی ہے
کسی کا سر جھکانے کے لیے چوکھٹ نہیں جاتی
میں رکھوں لاکھ میٹھے بول چن کر اپنے ہونٹوں پر
مگر لہجے سے سچائی کی کڑواہٹ نہیں جاتی
بتا دیتی ہے حال دل نگاہ مضطرب ان کی
پریشاں ہو کے عارض کی طرف اب لٹ نہیں جاتی
سمجھتا ہوں کہ وہ اک بار آ کر پھر نہیں آئے
مگر قدموں کی ان کے آج تک آہٹ نہیں جاتی
جلائیں گے دلوں کو تابکے شعلے مظالم کے
فضا کیوں گرم آہوں کے دھوئیں سے اٹ نہیں جاتی
اگر پھولوں کی سیجوں پر وہ محو خواب رہتے ہیں
تو کیا کانٹوں کے بستر پر مری شب کٹ نہیں جاتی
عتیقؔ اچھا نہیں ہوتا غرور اپنے بڑے پن کا
بزرگوں کے قدم چھونے سے عظمت گھٹ نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.