جو رنجشیں تھیں انہیں برقرار رہنے دیا
جو رنجشیں تھیں انہیں برقرار رہنے دیا
گلے ملے بھی تو دل میں غبار رہنے دیا
نئے مکان کی تعمیر کر تو لی ہم نے
پرانی چھت کو مگر برقرار رہنے دیا
نہ کوئی خواب دکھایا نہ غم دیا اس کو
بس اس کی آنکھوں میں اک انتظار رہنے دیا
اسے بھلا بھی دیا یاد بھی رکھا اس کو
نشہ اتار دیا اور خمار رہنے دیا
گلی کے موڑ سے آواز دے کے لوٹ آئے
تمام رات اسے بے قرار رہنے دیا
وہ ہم کو توڑ کے جاتا تو بھول جاتے اسے
نکلنے والے نے لیکن حصار رہنے دیا
نہ جانے کیا تھا کہ اس سے فریب کھا کر بھی
اسی کے ہاتھ میں سب اختیار رہنے دیا
یہ سرد رت بھی ہمیں خود کو تاپتے گزری
غزل کو ہم نے مگر سایہ دار رہنے دیا
بڑا گمان تھا اس کو ہماری چاہت کا
شکیلؔ ہم نے بھی اس کا خمار رہنے دیا
- کتاب : دل پرندہ ہے (Pg. 82)
- Author : شکیل اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.