کب جدا ہے مجھ سے دلبر کب میں دلبر سے جدا
کب جدا ہے مجھ سے دلبر کب میں دلبر سے جدا
ہو نہ گوہر آب سے اور آب گوہر سے جدا
روح تن سے جاں بدن سے ہوش ہے سر سے جدا
کیا کشاکش میں پھنسا ہوں جب سے دلبر سے جدا
ہو گئی برباد مٹی مل گیا میں خاک میں
جب ہوا نقش قدم کی طرح اس در سے جدا
حشر میں کس کی گریباں گیر ہوگی اے خدا
کیوں ہوئی خاک اپنی دامان ستم گر سے جدا
کیا ہی طالع کا ستارہ ہے نحوست میں مرا
ہو گیا وہ ماہ جیسے مجھ بد اختر سے جدا
لخت دل آگے چلا پیچھے رواں ہے فوج اشک
ہو نہیں سکتا یہ لشکر اپنے افسر سے جدا
جاگنے سے غیر کے ہمدم کہیں کیا رات بھر
ہم کو وہ ترسے جدا اور ان کو ہم ترسے جدا
جوش پر ہے چشم تر وحشت نہ لے جا سوئے دشت
موسم بارش میں ہم ہوں کس طرح گھر سے جدا
کب بچے جب بحر شور افزا میں اک طفل صغیر
ہو تلاطم میں کہیں دست شناور سے جدا
پائے وہ قعر جہنم میں جگہ اپنی وہاں
یاں ہو جس کا ہاتھ دامان پیمبر سے جدا
گرچہ ہے کم فرصتی دولہؔ غزل کہہ اور بھی
ان دنوں از بس ہے تو شوخ ستم گر سے جدا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.