کب کہا ہم نے اسے بار گراں جانتے ہیں
کب کہا ہم نے اسے بار گراں جانتے ہیں
ہم تو غم کو ترے سرمایۂ جاں جانتے ہیں
ابر زلفوں کو تو عارض کو سمجھتے ہیں گلاب
تیر نظروں کو تو ابرو کو کماں جانتے ہیں
ہیں وہی اصل میں میراث ادب کے وارث
میرؔ و غالبؔ کا جو انداز بیاں جانتے ہیں
وہ ہے میرے لیے آغاز سفر کی صورت
جس کو ارباب خرد اپنا مکاں جانتے ہیں
تشنہ لب رہ گئے ساحل پہ نہ جانے کتنے
کس کے کام آیا ہے یہ آب رواں جانتے ہیں
عظمت ارض وطن کیا ہے یہ ہم سے پوچھو
اس کے ذروں کو بھی ہم کاہکشاں جانتے ہیں
روز ڈھلتا ہے یہاں جام میں انساں کا لہو
روز حق گوئی پہ کٹتی ہے زباں جانتے ہیں
تنگیٔ زیست پہ گھبرا کے جو مر جاتے ہیں
رحمت رب دو عالم وہ کہاں جانتے ہیں
ہم سے پوچھے کوئی نیزے کی انی ہے کیا چیز
سنگ کیا ہوتا ہے آئینہ گراں جانتے ہیں
خامیٔ فکر ہے یا زعم بصیرت ہے ندیم
نرم گیتوں کو بھی کچھ لوگ فغاں جانتے ہیں
- کتاب : سراب دشت امکاں(غزلیات) (Pg. 71)
- Author : ڈاکٹر امتیاز ندیم
- مطبع : مکتبہ نعیمہ صدر بازار(مئو ناتھ بھنجن) (2020)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.