کہیں موجیں سلگتی ہیں کہیں طوفان جلتے ہیں
کہیں موجیں سلگتی ہیں کہیں طوفان جلتے ہیں
تری فرقت میں ہم سے سیکڑوں انسان جلتے ہیں
جو کل تک پھول برساتے رہے ہیں اپنی راہوں میں
وہی ہمدرد اب ہم سے بہ ہر عنوان جلتے ہیں
خدا کے نیک بندے آج بھی ساغر بکف نکلے
ہماری بادہ نوشی سے مگر شیطان جلتے ہیں
ہمارے دل بھی اب کچھ اس طرح جلتے ہیں سینوں میں
امیروں کے گھروں میں جیسے آتش دان جلتے ہیں
چراغ آرزو سے روشنی ہے دل کی بستی میں
تمنا کی تپش پا کر یہاں ارمان جلتے ہیں
مچلتے ہیں ادھر ساقی ادھر ساغر کھنکتے ہیں
گلوں کی شعلہ سامانی سے جب گلدان جلتے ہیں
شکم کی آگ میں انسانیت کے نام پر زیدیؔ
کہیں مزدور جلتے ہیں کہیں دہقان جلتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.