کہنے کو کمرے میں سارے یکجا بیٹھے ہیں
کہنے کو کمرے میں سارے یکجا بیٹھے ہیں
اپنے اپنے موبائل پر تنہا بیٹھے ہیں
اپنے ہی خوابوں کو کرکے پنجرہ بیٹھے ہیں
کرنے کیا آئے تھے لیکن کر کیا بیٹھے ہیں
جانے کس کے ہاتھ لگا چہرہ جو اپنا تھا
بے مطلب کب سے لے کر آئینہ بیٹھے ہیں
ایک سبق رٹتے تو ہیں پر یاد نہیں ہوتا
طفل مکتب کب سے کھولے بستہ بیٹھے ہیں
پھر ویران شجر پر وہ ہی رونق لوٹی ہے
پھر وہ پنچھی واپس ڈالوں پر آ بیٹھے ہیں
ناحق آپ نکل آئے دل کی پگڈنڈی پر
خاروں میں اب اپنا دامن الجھا بیٹھے ہیں
تنہائی واحد رستہ تھا تم تک آنے کا
دنیا والے اس پر بھی دنیا لا بیٹھے ہیں
ایک سمندر بھید چھپائے جذب کرے سب کو
آس لگائے کب سے کتنے دریا بیٹھے ہیں
روز وہی آہٹ وہ ہی سرگوشی بھیتر سے
اپنے میں ہم اپنے سے ہی اکتا بیٹھے ہیں
شام سے پہلے لوٹ کے گھر آنے کی عجلت میں
سیدھا سا رستہ رستوں میں الجھا بیٹھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.