کھنکتے سکوں کی ارتھی جہاں سے گزری ہے
کھنکتے سکوں کی ارتھی جہاں سے گزری ہے
غریبی کاسہ لیے پھر وہاں سے گزری ہے
ہمارے دل کی لگی جب گماں سے گزری ہے
کبھی زمیں تو کبھی آسماں سے گزری ہے
ابھی تو حلقۂ زنجیر پاؤں میں ہے مرے
ابھی صدا مری آہ و فغاں سے گزری ہے
چڑھا کے آگ پہ ہانڈی میں بھوک بچوں کی
تسلی ماں کی بڑے امتحاں سے گزری ہے
لکیر کھینچ دی نفرت کی دو قبیلوں میں
کبھی جو تیغ ہوس درمیاں سے گزری ہے
سجا دئے گئے کانٹے دلوں کے آنگن میں
تعصبات کی دیوی جہاں سے گزری ہے
انہیں ملے گا بھلا کیسے منزلوں کا نشاں
کہ منزلوں کی طلب کارواں سے گزری ہے
رہا شجیعؔ بھی ماں کی دعاؤں کا محتاج
حیات جب بھی کسی امتحاں سے گزری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.