خواہشوں کو سر پہ لادے یوں سفر کرنے لگے
خواہشوں کو سر پہ لادے یوں سفر کرنے لگے
لوگ اپنی ذات کو زیر و زبر کرنے لگے
اس جنوں کا اس سے بہتر اور کیا ہوگا صلہ
ہم خود اپنے خون سے دامن کو تر کرنے لگے
دھوپ میں جلتے رہے ہیں سرو کی صورت مگر
یہ غضب ہے چاند پر پھر بھی نظر کرنے لگے
دوستوں نے تحفتاً بخشے جو زخموں کے گلاب
ان کی بو محسوس ہم آٹھوں پہر کرنے لگے
یوں بدن میں خون کو عزم سفر کا ہو جنوں
دل کے دریا میں وہ پھر پیدا بھنور کرنے لگے
ریزہ ریزہ ہو نہ جائیں عکس شیشوں کے کبھی
اب تلاش سنگ خود ہی شیشہ گر کرنے لگے
پھول پتوں کا انہیں پھر ہوش کیا باقی رہے
جن درختوں کو ہوا زیر و زبر کرنے لگے
زندگی ہے بوجھ گر خود کو بدل کچھ اس طرح
زندگی تیرے لئے خود ہی سفر کرنے لگے
بڑھ گیا ہے اس قدر احساس محرومی شکیبؔ
لوگ اپنی ذات سے کٹ کر گزر کرنے لگے
- کتاب : Auraaq (Pg. 198)
- Author : Vazeer Agha
- مطبع : Office auraq. chouck Urdu Bazar, Lahore (Nov. Dec. 1974)
- اشاعت : Nov. Dec. 1974
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.