لاکھ بہلائیں کسی طرح بہلتا ہی نہیں
لاکھ بہلائیں کسی طرح بہلتا ہی نہیں
دل بھی لمحوں کی طرح ہے کہ ٹھہرتا ہی نہیں
اب کے موسم پہ تو جادو کوئی چلتا ہی نہیں
ابر اٹھتا ہے مگر کھل کے برستا ہی نہیں
کوئی خوشبو نہ کوئی اس کی کسک ہے اس میں
اس کے پتھر سے مرے زخم کا رشتہ ہی نہیں
جتنا سلجھاتے ہیں اتنا ہی الجھ جاتا ہے
مسئلہ زیست کا اب مجھ سے سلجھتا ہی نہیں
آندھیوں کا کرم خاص رہا ہے مجھ پر
اب کوئی شعلہ نشیمن پہ لپکتا ہی نہیں
میں بھی بک جاتا کبھی مصر کی خاتون کے ہاتھ
قافلہ کوئی ادھر ہو کے نکلتا ہی نہیں
چپ ہے اب وہ مرے حالات کے پس منظر میں
اب مرے سر کوئی الزام وہ دھرتا ہی نہیں
جس میں خود بینی خود آرائی و خودداری ہے
مصلحت کے کسی سانچے میں وہ ڈھلتا ہی نہیں
یہ حقیقت ہے ترے ترک تعلق کی قسم
خار اب کوئی مرے دل میں کھٹکتا ہی نہیں
جانے کس منزل موہوم پہ آ پہنچے ہیں
راستہ کوئی ہمارا یہاں تکتا ہی نہیں
کتنے منصور ہیں کہنے کو انا الحق کہہ دیں
دار کی سمت مگر رخ کوئی کرتا ہی نہیں
تیر و تلوار کا ہر زخم سنور سکتا ہے
بات کا زخم کسی حال میں بھرتا ہی نہیں
یہ محبت کا سمندر وہ سمندر ہے ظہورؔ
ڈوبنے والا کسی وقت ابھرتا ہی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.