میں کیوں کہوں کسی سے ضرورت ہی کیوں نہ ہو
میں کیوں کہوں کسی سے ضرورت ہی کیوں نہ ہو
دل اس سے بے نیاز ہے عسرت ہی کیوں نہ ہو
مردم گزیدگی کا اثر ہے کہ آج تک
ڈرتا ہوں میں فریب محبت ہی کیوں نہ ہو
کیا کیا تعصبات ہیں دنیا میں جابجا
تشویش دل فزوں ہے کہ ہجرت ہی کیوں نہ ہو
ناکام آرزو ہے کوئی دل تو کیا ہوا
تسکین جاں ہے کچھ تو وہ حسرت ہی کیوں نہ ہو
گونجے گی اور تیشۂ مزدور کی صدا
ہر چند اہل زر کی ملامت ہی کیوں نہ ہو
مجھ کو نہیں قبول غلامی کا لفظ بھی
خدمت گزار وقت کی اجرت ہی کیوں نہ ہو
حسن خیال کے سوا بنتی ہے بات کب
حسن بیان میں کوئی ندرت ہی کیوں نہ ہو
بد خصلتی سے باز کب آتا ہے بد نہاد
کم ظرف واماں بے ضمیر پہ لعنت ہی کیوں نہ ہو
ہم بندگان خاک نشیں خاکسار ہیں
اپنے لیے فضول ہے سطوت ہی کیوں نہ ہو
فصل گل بہار کی خواہش تو کیجیے
صحرائے زندگی میں سکونت ہی کیوں نہ ہو
راہیؔ خلوص دل کے سوا ہاتھ کچھ نہ آئے
دل میں درود ورد میں آیت ہی کیوں نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.