ملا ہے دل ہمیں دلبر کی آرزو کے لئے
دلچسپ معلومات
(25ستمبر 1958ء ) (بیاد نواب سائل دہلوی)
ملا ہے دل ہمیں دلبر کی آرزو کے لئے
زباں ملی ہے محبت کی گفتگو کے لئے
تجھے حرم میں کلیسا میں دیر میں ڈھونڈھا
کہاں کہاں نہ اٹھے پاؤں جستجو کے لئے
تم آ گئے تو نہ ہم تم سے کہہ سکے کچھ بھی
مگر زبان بنی آنکھ گفتگو کے لئے
پسند آپ کو اپنے لئے جو ہو نہ سلوک
نہ بھول کر بھی گوارا کریں عدو کے لئے
کبھی بہ پاس ادب آنکھ بھی نہیں اٹھتی
کبھی زبان تڑپتی ہے گفتگو کے لئے
کسی کی آنکھ میں آنسو بھی اب نہیں آتے
یہ بخل وہ بھی فقط بوند بھر لہو کے لئے
جناب و آپ مبارک مرے حریفوں کو
مجھے تو تو نے مخاطب کیا ہے تو کے لئے
جگر کے چاک سلامت رہیں قیامت تک
کبھی یہ چاک مچلتے نہیں رفو کے لئے
خیال آئے بشر کو جو بے ثباتی کا
جئے ذرا بھی نہ دنیائے رنگ و بو کے لئے
دیا تھا جس نے کبھی اذن مے کشی ساقی
وہ بد نصیب تڑپتا ہے اک سبو کے لئے
نہ مر گیا ہو اگر تیری آنکھ کا پانی
تو چند بوند ہمیں بھی ملیں وضو کے لئے
جنہیں خبر نہیں کہتے ہیں آبرو کس کو
وہ جان دیں گے بھلا حفظ آبرو کے لئے
مشاہدات بصیرت نہیں تو کچھ بھی نہیں
نظر بھی چاہئے چشم نظارہ جو کے لئے
زبان کھل نہ سکی ان کے روبرو طالبؔ
کہ خامشی بھی ضروری تھی گفتگو کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.