محبت کا تلاطم خیز طوفاں دل سے اٹھتا ہے
محبت کا تلاطم خیز طوفاں دل سے اٹھتا ہے
یہ وہ سیلاب ہے جو سینۂ ساحل سے اٹھتا ہے
وفور شوق دید و جذبۂ کامل سے اٹھتا ہے
نقاب اٹھتا تو ہے لیکن بڑی مشکل سے اٹھتا ہے
کوئی جب با دل ناخواستہ محفل سے اٹھتا ہے
قدم اٹھتا تو ہے اس کا مگر مشکل سے اٹھتا ہے
بھٹکتا ہے کوئی گم کردہ منزل راہ میں شاید
غبار اس کا ابھی تک جادۂ منزل سے اٹھتا ہے
دم نظارہ گر جاتا ہے مجنوں کی نگاہوں پر
وہی پردہ جو لیلیٰ کے در محمل سے اٹھتا ہے
جلاتی شمع ہے یا آپ جل جاتا ہے پروانہ
بہر صورت یہ فتنہ آپ کی محفل سے اٹھتا ہے
کلیجے میں کبھی جب آتش الفت سلگتی ہے
جگر سے کچھ دھواں اٹھتا ہے شعلہ دل سے اٹھتا ہے
کہو باد مخالف سے بتا دو موج طوفاں کو
مری کشتی کا لنگر دامن ساحل سے اٹھتا ہے
تصور میں نظر آتا ہے جلوہ بے نقاب ان کا
جب آنکھیں بند ہوتی ہیں تو پردہ دل سے اٹھتا ہے
ابھرنا ہے تو یاد تلخیٔ ماضی سے کیا حاصل
جب اٹھتا ہے کوئی امید مستقبل سے اٹھتا ہے
فرشتے آج تک حیران ہیں انساں کی ہمت پر
یہ بار عشق اے طلعتؔ بڑی مشکل سے اٹھتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.