نسل وہ باقی کہاں بچی ہے ہجرت کرنے والوں کی
نسل وہ باقی کہاں بچی ہے ہجرت کرنے والوں کی
اب تو قطاریں لگی ہوئی ہیں جیسے مرنے والوں کی
کھلی ہوئی ہے چھت پر کھڑکی ایک پرانے کمرے کی
جس سے کوئی دیکھا کرتا تھا شکل گزرنے والوں کی
کچھ دن ان میں رہ کر دیکھا تو اک دم احساس ہوا
کیسی ہے بے رنگ سی دنیا بننے سنورنے والوں کی
دیکھو یار اس خالی گھر سے برسوں بعد بھی شام ڈھلے
آوازیں آتی رہتی ہیں آہیں بھرنے والوں کی
کتنی چیزیں پڑی ہوئی ہیں باہر بے ترتیبی سے
اپنے اندر لمحہ لمحہ روز بکھرنے والوں کی
تنہائی کی گرد میں لپٹی بول رہی ہیں تصویریں
آنکھوں میں تو جھانک کے دیکھو خود سے ڈرنے والوں کی
آہستہ آہستہ سب کردار عیاں ہو جائیں گے
پشت پناہی کرتے رہے ہیں جو بھی دھرنے والوں کی
چہرے ظہورؔ اب یاد نہیں ہیں اتنا یاد ہے لہروں میں
چیخیں سنی تھیں لوگوں نے دریا میں اترنے والوں کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.