نظر اٹھی جدھر تیری ادھر ہی میں نے جاں رکھ دی
نظر اٹھی جدھر تیری ادھر ہی میں نے جاں رکھ دی
مگر حیراں ہوں میں خود بھی متاع جاں کہاں رکھ دی
جسے دینا تھا دے ڈالا نہیں دل کوئی ایسی شے
ادھر رکھ دی ادھر رکھ دی یہاں رکھ دی وہاں رکھ دی
تجھے آواز دیتا ہوں میں جب تنہائی پاتا ہوں
نہاں خانے میں دل کے اک نئی طرز فغاں رکھ دی
بہت چاہا کہ حال دل کبھی کوئی نہ سن پائے
مگر کمبخت آنکھوں نے خموشی میں زباں رکھ دی
عناصر میں بڑا ہیجان تھا طوفاں سا برپا تھا
بنا دنیا کی ایسے میں کسی نے ناگہاں رکھ دی
چمک ان موتیوں کی اور بھی دو چند ہونی تھی
خود اپنے فن پہ میں نے ہی نگاہ ناقداں رکھ دی
عنایت دل کی ہے عشق حقیقی ہو مجازی ہو
یہی اک بات ہے جو داستاں در داستاں رکھ دی
مٹا دی اپنی ہستی پھر بھی دنیا کچھ نہ دے پائی
جبیں مجھ کو کہاں رکھنی تھی اور میں نے کہاں رکھ دی
چلائے جاتے تم بھی تیر ناہنجار دنیا پر
مگر رضوانؔ تم نے بھی تو آخر میں کماں رکھ دی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.