رہیں خلاف مرے زہر بھی اگلنے لگیں
رہیں خلاف مرے زہر بھی اگلنے لگیں
مگر نہ اتنا کہ ملنے پہ ہاتھ ملنے لگیں
تو کیا بدل لوں میں اپنا مزاج ان کی طرح
جو بن کے سانپ مری آستیں میں پلنے لگیں
سمجھنا عشق کی معراج مل گئی ہے مجھے
مرے مزار پہ جب بھی چراغ جلنے لگیں
بہت سنبھال کے رکھتا ہوں کھوٹے سکے میں
عجب نہیں کہ کسی روز یہ بھی چلنے لگیں
ہے آرزو کہ وہ ڈالیں نگاہ شوخ ادھر
جبین شوق میں سجدے کئی مچلنے لگیں
تمہاری یادوں کی خوشبو فضاؤں میں بکھرے
ہوائیں میرے ارادوں کی سمت چلنے لگیں
جنون عشق ہمیں ہوش اتنا رہنے دے
کہ لڑکھڑائیں اگر ہم تو خود سنبھلنے لگیں
چراغ اس لئے شب کو نہیں جلاتا میں
کہیں نہ سائے مرے ہی مجھے نگلنے لگیں
اب ایسے موم بدن بھی نہیں فہیمؔ کہ ہم
ذرا سی گرمیٔ آلام سے پگھلنے لگیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.