رہی اک غیرت لیلیٰ کی دل میں جستجو برسوں
رہی اک غیرت لیلیٰ کی دل میں جستجو برسوں
برنگ قیس ہم نے خاک چھانی کو بکو برسوں
نہ لائے کچھ زباں پر ہم خموشی نام ہے اس کا
کیا سینے میں ہم نے اپنے خون آرزو برسوں
تساہل اس کو کہتے ہیں تغافل نام ہے اس کا
گئی اک دم میں میری جان اور آیا نہ تو برسوں
جو گھڑیوں دانت پیسے ہیں تو برسوں ہونٹھ چابے ہیں
لب رنگیں کے غم میں ہم نے تھوکا ہے لہو برسوں
پریشانی پہ میری کچھ نہ رحم آیا اسے ہرگز
کہا زلف دوتا سے حال اپنا مو بہ مو برسوں
مہینوں داستاں میری سنی ہے عندلیبوں نے
اڑایا ہے گل تر نے تمہارا رنگ و بو برسوں
کیا گر شغل مے خواری کا تم نے غیر سے دم بھر
بھرا خون جگر سے ہم نے جام آرزو برسوں
کمر کا حل ہوا ہرگز نہ عقدہ مو شگافوں سے
رہی ہے مجھ سے اثبات دہن میں گفتگو برسوں
در مے خانہ محراب عبادت سمجھے ہم مے کش
شراب پرتگالی سے کیا ہم نے وضو برسوں
کہیں ماہ دوہفتہ کی نظر مجھ کو نہ لگ جائے
نہ آیا بام پر اس خوف سے وہ ماہرو برسوں
ادا ہو سجدہ محراب خم شمشیر قاتل میں
کیا اپنے لہو سے اس لئے ہم نے وضو برسوں
تصور میں جو بوسہ لے لیا تھا ہم نے ہونٹھوں کا
رہا آزردہ اتنی بات پر وہ تند خو برسوں
نہیں کچھ ایک دو دن کا ہوں میں شاگرد اے وہبیؔ
قلقؔ سے شاعری میں میں نے کی ہے گفتگو برسوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.