رقص زمیں کو گردش افلاک چاہیے
رقص زمیں کو گردش افلاک چاہیے
نقش قدم کو فرش خس و خاک چاہیے
مٹی تو دست کوزہ گراں میں ہے دیر سے
برتن میں ڈھالنے کے لیے چاک چاہیے
ہم ایسے سادہ لوح سے کیا مانگتی ہے زیست
اس کو حریف بھی کوئی چالاک چاہیے
کم فرصتی کا ان کی مجھے بھی لحاظ ہے
احوال دل کو دیدۂ نمناک چاہیے
ٹھہرے ہوئے ہیں اشک ہواؤں کی آنکھ میں
موسم کو اب کے وحشت بے باک چاہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.