رسم مے خانہ نبھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
رسم مے خانہ نبھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
اپنے حصے کی اٹھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
جانے کیا سوچ کے آتے ہیں چلے جاتے ہیں
حوصلہ میرا بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
رابطہ ہے نہ تعلق ہے کوئی پہلا سا
رفتگاں خواب میں آتے ہیں چلے جاتے ہیں
وہ جو لفظوں کے الٹ پھیر کو فن کہتا ہے
اس کو میزان تھماتے ہیں چلے جاتے ہیں
مانتا ہوں کہ ہیں حائل کئی پربت لیکن
ہم یہ دیوار گراتے ہیں چلے جاتے ہیں
خوف کے سائے میں کیوں ختم ہو سوچوں کا سفر
آؤ ہنستے ہیں ہنساتے ہیں چلے جاتے ہیں
جس کو آنا ہے وہ آئے گا ہمیں فکر نہیں
ہم تو آواز لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
غم بھی اپنا ہے نعیمؔ آج تذبذب کا شکار
اشک پلکوں تلک آتے ہیں چلے جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.