ریت میں کتنی ہی سیپیاں دفن ہیں جن کے سینوں سے گوہر نکلتے رہے
ریت میں کتنی ہی سیپیاں دفن ہیں جن کے سینوں سے گوہر نکلتے رہے
اور سمندر میں ایسے صدف بھی ہیں جو موتیوں کے لئے ہاتھ ملتے رہے
راہ غم کی مسافت بھی کیا خوب تھی خود ہی گرتے رہے خود سنبھلتے رہے
راستہ بھی نیا تھا سفر بھی نیا جس طرف اٹھ گئے پاؤں چلتے رہے
آئے اوروں کے دامن میں تو پھول بھی اپنے دامن میں آنسو ہی پلتے رہے
ہم تو مجبور کے طاق کے دیپ ہیں خود ہی بجھتے رہے خود ہی جلتے رہے
راز کیسا بھی ہو راز پھر راز ہے رازداں میں نے اپنا بنایا نہیں
مسلک عشق میں یہ بڑا جرم تھا دل کے ارمان دل میں مچلتے رہے
اوس سے پیاس کس طرح بجھتی مری جھلسے جیون کو خواہش تھی برسات کی
کھیتیاں وہ جو پہلے سے شاداب تھیں ان پہ دن رات بادل مچلتے رہے
رہبروں کی سیاست نہ کچھ پوچھئے رہزنوں کی حفاظت نہ کچھ دیکھیے
خواب تریاک کے بھی سنورتے رہے سانپ بھی آستینوں میں پلتے رہے
لاکھ طوفان آئے چلیں آندھیاں پتھروں کی بھی برسات ہوتی رہی
ایسے اشجار بھی اس چمن میں ملے ظلم سہتے رہے اور پھسلتے رہے
آگ فرقہ پرستی کی ایسی لگی جو نہ اب تک کسی کے بجھائے بجھی
رہنما امن کا سوانگ رچتے رہے اور گھروں سے جنازے نکلتے رہے
کس قدر بن گئے آج وہ سنگ دل جن کے ہاتھوں میں پتھر کبھی موم تھا
یہ نہ ان کی سمجھ میں ظہورؔ آ سکا کتنے سورج اندھیرے نگلتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.