ساغر میں بھی ڈھلتی رہتی ہے سجدوں میں بھی پلتی رہتی ہے
ساغر میں بھی ڈھلتی رہتی ہے سجدوں میں بھی پلتی رہتی ہے
خواہش ہے بہر حال ایک مگر سو بھیس بدلتی رہتی ہے
آداب بدلتے رہتے ہیں تہذیب بدلتی رہتی ہے
انسان کی فطرت سانچے میں حالات کے ڈھلتی رہتی ہے
بات اپنے اپنے ظرف کی ہے دریا کی متانت کیوں ہو خفا
دریا ہی سے وہ بھی نکلی ہے جو نہر مچلتی رہتی ہے
اس راہ گزار امکاں میں ارباب ہوس کی معذوری
پھولوں کی تمنا دل میں لئے کانٹوں پہ چلتی رہتی ہے
اے ہم نفسو آہیں نہ بھرو ناکام سہی مایوس نہ ہو
یہ کس نے کہا غم کی آندھی چلتی ہے تو چلتی رہتی ہے
سودائے طلب گمراہ سہی لیکن یہ نتیجہ کیا کم ہے
ہر سلسلۂ نقش پا سے اک راہ نکلتی رہتی ہے
امکان وہی پیمانے وہی رجحان وہی افسانے وہی
دیوانے وہی احساںؔ لیکن زنجیر بدلتی رہتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.