ساحل سے طبیعت گھبرائی موجوں میں سفینہ چھوڑ دیا
ساحل سے طبیعت گھبرائی موجوں میں سفینہ چھوڑ دیا
جینے کی لگن میں ہم ہی نے جینے کا قرینہ چھوڑ دیا
دامن میں لگائی آگ ادھر اب ان کے کرم کو کیا کہئے
طوفان کا رخ تھا جس رخ پر کشتی کا ادھر رخ موڑ دیا
تھے ساتھ اسیر فصل جنوں راہوں میں نہ جانے کیا گزری
کیا کہئے کہ کس نے ساتھ دیا کیا کہئے کہ کس نے چھوڑ دیا
جینے نہ دیا اپنوں نے ہمیں یوں زور بھی دل پر چل جاتا
کچھ بات ہی ایسی تھی ہم نے اک شیشۂ دل بھی توڑ دیا
چاہا نہ ہمیں نے ورنہ یہ سب چاند ستارے جھک جاتے
کچھ وجہ سکون دل کے لیے ہم نے وہ سہارا چھوڑ دیا
نازک تھا بہت گلشن کا چلن نازک تھا بہت آئین چمن
پھولوں کی تمنا ہم نے نہ کی کانٹوں ہی سے رشتہ جوڑ دیا
رو رو کے گزاری شب ویسے جب صبح چمن میں آنکھ کھلی
احباب وطن نے اے تحسینؔ مے خانۂ یاراں چھوڑ دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.