صحرا کا شجر فیض میں ماؤں کی طرح تھا
صحرا کا شجر فیض میں ماؤں کی طرح تھا
جو دھوپ میں جنت کی فضاؤں کی طرح تھا
میں غربت و افلاس کے صحرا کا مسافر
وہ ریشم و اطلس کی قباؤں کی طرح تھا
جو جسم پہ رکھتا تھا رئیسوں کا لبادہ
وہ شخص مزاجاً تو گداؤں کی طرح تھا
اے جان بہاراں ترے اک آنے سے پہلے
یہ دل کسی اجڑے ہوئے گاؤں کی طرح تھا
وہ لمحہ جو گزرا ترے بن کیسے بتاؤں
طوفان حوادث کی ہواؤں کی طرح تھا
یہ عقدہ کھلا جو مرا دم ساز تھا اب تک
صحرا میں وہ بے فیض صداؤں کی طرح تھا
اس شخص سے محروم ہوا دست تمنا
جو مجھ کو مصیبت میں دعاؤں کی طرح تھا
رہ رہ کے بہت دھوپ میں یاد آتا ہے راہیؔ
اپنے لیے برگد کی جو چھاؤں کی طرح تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.